عصرحاضر میں اسلامی قانون کی معنویت
از: اختر امام عادل قاسمی
مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف
سمستی پور، بہار
اسلامی قانون ایک انتہائی حساس موضوع ہے
جس پر ہردور کے بہترین دماغ خرچ ہوئے ہیں اور امت کے ذہین ترین
لوگوں نے اس پرکام کیاہے، دیگر علوم وفنون کی طرح اس کی
فنی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، لیکن اصل چیز جس
نے ہر دور میں اس کو زندہ علم کے طور پر باقی رکھا ہے اور جس میں
دنیا کا کوئی علم وفن اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا وہ ہے حالات
زمانہ پر اس کی تطبیق کا مسئلہ، یہ محض ایک فن نہیں
ہے جو تحقیق وریسرچ کی چہار دیواری میں محدود
ہے بلکہ دنیا کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے، احوال زمانہ پر
اس کی نظر ہے، سوسائٹی کا نظم وضبط اس کے ذمہ ہے، نظام اخلاق کی
باگ ڈور اس کے پاس ہے، احوال وظروف کی تشکیل میں اس کا بڑا حصہ
ہے، اگر معاشرہ پر اسلامی قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انسان اور
حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا، اسلامی
قانون اخلاق اور انسان کی پرائیویٹ لائف سے بھی بحث کرتا
ہے اور سیاسی اور سماجی نظام سے بھی، اسلامی قانون
انسانی دنیا کے لئے خدا کا شاندار عطیہ ہے، انسانوں کا بنایا
ہوا کوئی قانون اس کی ہمسری نہیں کرسکتا، جب تک دنیاپر
اسلامی قانون کی حکمرانی قائم رہی دنیا میں
امن وسکون اور خوشحالی وفارغ البالی بھی پورے طور پر باقی
رہی، لیکن جب سے دنیا اس قانون کے سایہ سے محروم ہوئی
ہے بدامنی، بدچلنی، غربت وبھوک مری عام ہوئی، محبت
ورواداری نے دم توڑ دیا، انسانی قدریں پامال ہوئیں،
سارا فلسفہٴ اخلاق کتابوں کے اوراق تک محدود ہوکر رہ گیا، عام زندگی
سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا، قانون کو بازیچہ
اطفال بنادیاگیا، دنیا کے کہترین دماغوں نے بھی اس
پر دماغی زورآزمائی شروع کردی، جو قانون کے تعلق سے خود مخلص نہیں
تھے ان کو عوامی انتخابات کے ذریعہ قانون سازی کا اختیار
دے دیاگیا اس طرح قانون کو اپنی خواہشات کی تکمیل
کا ذریعہ بنالیا گیا، دنیا نے اسلامی قانون سے
محرومی کیا گوارا کی، زندگی کی ساری نعمتوں
سے محروم ہوگئی، آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے،
آج دنیا جس امن وسکون کی متلاشی ہے وہ صرف اور صرف قانون اسلامی
کی نگرانی ہی میں حاصل کی جاسکتی ہے دنیا
کے تمام تر قوانین اس کے سامنے بونے اور ادھورے ہیں سب نے اسلامی
قانون سے خوشہ چینی کی ہے اور سینکڑوں برسوں سے ہزاروں
دماغ اس کی ترتیب وتہذیب میں لگے ہوئے ہیں لیکن
اس کے باوجود وہ اپنے دور طفولیت سے بھی نہیں نکل سکے ہیں۔
آج دنیا کے سنجیدہ لوگ دوبارہ اسلامی قانون کے تعلق سے غور
کرنا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہمارے اپنوں کی نادانی اور کچھ غیروں
کی عیاری کہ یہ بات صرف نظریہ وتفکیر کی
حد تک رہ جاتی ہے کوئی عملی صورت نہیں بن پاتی، ان
حالات میں ہمارے ذہین اورمخلص لوگوں کو اس موضوع پر کام کرنے کی
سخت ضرورت ہے، ادھر چند دہائیوں سے اسلامی علوم پر کام کرنے والوں میں
یہ رجحان بڑھا ہے اوراس سلسلے کی بعض کاوشیں بھی سامنے آئی
ہیں، اس ضمن میں حقیر راقم الحروف کی بھی ایک
کوشش دوسال قبل کتابی صورت میں سامنے آئی ہے، اس میں اس
موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے بہت کچ مواد مل سکتا ہے۔
ایک مکمل نظام حیات
اسلام ایک آفاقی مذہب اور مکمل نظام حیات کا نام ہے جس نے
ہر دور میں انسانیت کی رہبری کی ہے ایک ہزار
سال سے زیادہ مدت تک روئے زمین کی سب سے مضبوط اور رقبہ کے لحاظ
سے سب سے وسیع قیادت کی زمام کار اس کے ہاتھ میں رہی
ہے اور اس پورے عرصے میں سینکڑوں انقلابات اور حالات کی گردشوں
کے باوجود کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی کسی حلقے میں یہ
احساس نہیں پایاگیا کہ اس قانونی نظام میں کسی
قسم کی تنگی یا تشنگی پائی جاتی ہے اسلام کے
قانونی نظام نے ہردور میں انسانیت کے ہر طبقے کے مسائل کو حل کیا
اور ملک وقوم کی ترقی واستحکام میں بنیادی رول ادا
کیا۔
جب تک مسلمان شعوری طور پر اس نظام سے وابستہ رہے ان کی ترقی
وتوسیع کا سلسلہ جاری رہا، وہ جہاں گئے ارض وفلک نے ان کا استقبال کیا
لوگوں نے اپنی پلکیں بچھائیں اور دنیا نے ان کا خیرمقدم
کیا اس لئے کہ وہ ایسا نظام حیات جاری کرنے گئے تھے جو
امن وخوشحالی، ترقی واستحکام اور داخلی وخارجی سکون کا
دائمی ضامن ہے۔
زوال کا سبب
لیکن جب مسلمانوں کا رشتہ شعوری یا غیرشعوری
طورپر اس نظام سے کمزور ہوا تو وہ بھی اندرونی طور پر کمزور ہونے لگے
اور ان کی قومی واجتماعی زندگی پر زوال کی پرچھائیاں
پڑنے لگیں اس لئے کہ اجتماعی زندگی کیلئے اجتماعی
نظام کی ضرورت ہے اور کسی بھی اجتماع کے ٹوٹنے کے لئے یہ
کافی ہے کہ اس نظام کو توڑ دیا جائے یا مشتبہ کردیا جائے
جس سے وہ اجتماع جڑا ہوا ہے، کسی بھی قوم کا زوال اسی نقطہ سے
شروع ہوتا ہے خواہ اس کا ادراک قوم کے بڑے طبقے کو ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے
ساتھ بھی یہی ہوا، مسلمانوں نے جو خدائی قانون اور اسلامی
نظام روئے زمین پر نافذ کیا تھا اس میں مسلمان فاتح کی حیثیت
سے تھے، اس نظام کی ترجیحات میں سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کا تھا۔
دوسری اقوام اور اقلیتوں کو بھی تمام انسانی حقوق دئیے
گئے تھے مگر فرق یہ تھا کہ اس میں مسلمانوں کی حیثیت
دینے والوں کی اور دوسری اقوام کی لینے والوں کی
تھی، لیکن جب اسلامی نظام کی جگہ دوسرا نظام آیا
اور اجتماعیت دین سے کٹ کر غیردینی نظام سے جڑگئی
تو اس نئے نظام میں تمام ترجیحات دوسروں کے لئے ہوگئیں اوراس کی
اگلی صفوں میں ایسے لوگ براجمان ہوگئے جن کو مسلمانوں کے ساتھ
کوئی ہمدردی نہیں تھی اس لئے اب مسلمانوں کو پچھلی
سیٹ پر بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارئہ کار نہ تھا۔
اگر اس موقعہ پر بھی مسلمانوں کی قومی غیرت اور دینی
حس جاگ اٹھتی تو وہ اپنی غلطیوں کی تلافی کرسکتے
تھے اور اس نئے مصنوعی نظام سے پیچھا چھڑاسکتے تھے مگر افسوس کہ مسلمانوں
کے حکمراں طبقے کی غالب اکثریت ایسی مجرمانہ غفلت کی
شکار رہی اور جھوٹی مصلحتوں اور عارضی لذتوں کے وہ ایسے
دلدادہ رہے کہ ان کی ساری حس ہی مردہ ہوکر رہ گئی، بقول
شاعر
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اور جب کوئی قوم اس درجہ بے حسی کا شکار ہوجاتی ہے تو زندگی
کی ساری رعنائیاں اس سے رخصت ہوجاتی ہیں اور اس میں
اور مردہ جسم میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ ...
قرآن حکیم نے اس قومی زوال اور اجتماعی بے حسی کو موت کا
نام دیا ہے:
اموات غیر احیاء و ما یشعرون ایان یبعثون
(النمل:۲۱)
ترجمہ: ”یہ زندوں کی آبادی نہیں بلکہ مردوں کی
بستی ہے، جو اٹھنے اور اٹھائے جانے سے بے خبر پڑے ہیں“
آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے عمومی زوال کا بڑا سبب یہ
ہے کہ اپنے چشمہ حیات سے ان کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے انھوں نے اس قانونی
نظام کو سردخانے میں ڈال دیا ہے، جو نہ صرف ان کی زندگی و
تشخص کو ضمانت فراہم کرتا ہے بلکہ ساری انسانیت کی حیات
وارتقا کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے، مسلمانوں کی مثال اس
کائنات ارضی میں دل کی ہے دل سے صالح خون جاری ہوگا تو
سارے عالم کا نظام درست رہے گا اور دل کا نظام کمزور ہوگا تو سارے عالم پر اس کا
اثر پڑے گا۔ لیکن مسلمان اپنا یہ مقام بھول گئے ان کو اپنی
حقیقت کا عرفان نہ رہا انھیں یاد نہ رہا کہ وہ کس خدائی
منصب اور خدائی نظام کو لے کر اس انسانی دنیا میں آئے ہیں؟
انسانیت کتنی پیاسی ہے؟ قوموں کو ان کی کتنی
ضرورت ہے؟ انھوں نے اپنے اوپر غفلت وخود فراموشی کی چادر تان لی
اور اقوام عالم کو وادیٴ ظلمات میں جنگل کی بھیڑ کی
طرح بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا، بلکہ وہ بھی دنیا کی دوسری
قوموں کی طرح مادہ پرستی، دنیا طلبی، بدمستی وعیش
کوشی کے میدان میں کود پڑے اور ابلیسی نظام یہی
چاہتا تھا کہ دوسروں کو جگانے والی قوم خود سوجائے، بارخلافت اٹھانے والی
جماعت خود تھک کر بیٹھ جائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا
سوتا خشک ہوکر رہ جائے۔
بقول ڈاکٹر اقبال۔
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
کاش کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی کہ مسلمان پھر
اپنے گھر کی طرف پلٹیں، اپنا کھویا ہوا خزانہ واپس لیں،
انھیں ایسی آنکھ نصیب ہو کہ وہ ہیرے موتی اور
کنکر پتھر میں فرق کرسکیں اور وہ پوری بصیرت کے ساتھ جان
سکیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا مصنوعی نظام کبھی خالق
کائنات کے عطا کردہ قانونی نظام کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا پھر یہ کیسی
نادانی ہے؟ کہ خالق کا آستانہ چھوڑ کر دنیا مخلوق کے پیچھے دوڑ
رہی ہے۔
اولٰئک یدعون الی النار واللّٰہ یدعو
الی الجنة (البقرة:۲۲۱)
ترجمہ: ”دنیا والے آگ کی طرف بلارہے ہیں اور اللہ تمہیں
جنت کی طرف پکاررہا ہے“
مگر اکثر لوگ رحمن کی پکار کے بجائے شیطان کے بلاوے پر کان دھررہے
ہیں۔ (قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز،
ج:۱، ص:۵۵-۵۷)
اسلامی قانون کا مزاج
اس ضمن میں ہمیں اسلامی قانون کے مزاج کو اپنے پیش
نظر رکھنا بہت مفید ہوگا اس طرح اسلامی قانون کی افادیت
اور اہمیت کو ہم اور اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں:
اسلامی قانون میں تمام اقوام عالم اور دنیا کے ہر خطے کی
نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت رکھی گئی
ہے، اسی مقصد کے پیش نظر اسلامی قانون کی تشکیل کے
وقت چند بنیادی امور کا لحاظ کیا گیا جن سے اسلامی
قانون کے ذوق ومزاج پر روشنی پڑتی ہے مثلاً:
* پورا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیا جائے
جو عام لوگوں کیلئے ناقابل برداشت ہو۔
* عید اور تہوار منانے کی خواہش ہر قوم کے اندر موجود ہے اس جذبہ کی
قدردانی کرتے ہوئے سال میں دودن قومی عید کیلئے
مقرر کئے گئے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب
وزینت کرنے کی اجازت دی گئی۔
* عبادات میں طبعی رغبت ومیلان کو اہمیت
دی گئی اور ان تمام محرکات وعوامل کی اجازت دی گئی
جو اس میں معاون ومددگار ثابت ہوں بشرطیکہ ان میں کوئی
قباحت نہ ہو۔
* جو چیزیں طبع سلیم پر گراں گذرتی ہیں ان کو
ممنوع قراردیا گیا۔
* تعلیم وتعلّم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دائمی
شکل دی گئی تاکہ انسانی طبائع کو اسلامی مزاج کے مطابق
ڈھالنے میں مدد ملتی رہے۔
* بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے
دو درجے مقرر کئے گئے تاکہ انسان اپنی سہولت کے مطابق جس کو چاہے اختیار
کرے۔
* بعض احکام میں رسول اللہ عليه وسلم سے دو مختلف قسم کے عمل منقول ہیں
اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
* بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا۔
* احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقا کو ملحوظ رکھا گیا، یعنی
ایک ہی وقت میں تمام احکام نافذ نہیں کردئیے گئے
اور نہ ساری پابندیاں عائد کردی گئیں۔
* تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی
اور خامی کی خاص رعایت رکھی گئی۔
* نیکی کے زیادہ تر اعمال کی مکمل تفصیل بیان
کردی گئی اور اس کو انسانوں کی فہم پر نہیں چھوڑا گیا
ورنہ بڑی دشواری پیش آتی۔
* بعض احکام کے نفاذ میں حالات ومصالح کی رعایت کی گئی
اور بعض میں اشخاص وافراد کی۔
قرآن وحدیث میں متعدد صراحتیں اور ا شارات ایسے موجود
ہیں جن سے مندرجہ بالا اصولوں پر روشنی پڑتی ہے، مثلاً:
فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم ولو کنت فظاً غلیظ
القلب لانفضوا من حولک (آل عمران: ۱۷)
ترجمہ: ”اللہ ہی کی رحمت سے آپ ان کے لئے اتنے نرم دل ہیں،
اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے۔“
لا یکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا (بقرة: ۲۸۶)
ترجمہ: ”اللہ کسی شخص کو اس کی قدرت وطاقت سے زیادہ مکلف نہیں
بناتا“
یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید
بکم العسر (بقرة: ۱۸۵)
ترجمہ: ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے دشواری اور تنگی
نہیں چاہتا۔“
وما جعل علیکم فی الدین من حرج (الحج:۷۸)
ترجمہ: ”اللہ نے دین کے معاملے میں تمہارے لئے کوئی تنگی
نہیں رکھی“
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم
من حرج ولکن یرید لیطہرکم (المائدة:۶)
ترجمہ: ”اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی دشواری میں
مبتلا کرے بلکہ اس کا مقصد تم کو پاک وصاف کرنا ہے۔“
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے حضرت موسیٰ اشعری رضى الله
تعالى عنه اور حضرت معاذ بن جبل رضى الله تعالى عنه کو دینی معاملات
کا انتظام سپرد کرتے وقت فرمایا:
یسرا ولا تعسرا ولا تنفرا تطاوعا ولا تختلفا (متفق علیہ:
مشکوٰة ۳۲۳ باب ما علیٰ الولاة من التیسیر)
ترجمہ: آسانی پیداکرو، مشکل میں نہ ڈالو، رغبت دلاؤ، نفرت
نہ دلاؤ، جذبہٴ اتحاد واتفاق کو فروغ دو۔
ایک اور موقعہ پر ارشاد فرمایا:
بعثت بالحنفیة السمحة (رواہ احمد: مشکوٰة شریف:
۳۳۴ الجہاد)
ترجمہ: میں آسان دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہوں۔
لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام (ابن ماجہ: ۳۴۰
مستدرک حاکم ج۲ ص ۵۷،۵۸)
ترجمہ: اسلام میں نہ کسی کو تکلیف پہنچانا ہے اور نہ خود
تکلیف اٹھانا ہے۔
مسواک کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
لولا ان اشق علی امتی لامرتہم بالسواک عند کل
صلوٰة (المشکوٰة: ۴۵ باب سنن الوضوء)
ترجمہ: اگر مجھے اسے بات کااندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت
میں پڑجائے گی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا وجوبی
حکم دیتا۔
کعبہ میں ترمیم نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے آپ صلى الله عليه
وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا:
لولا حدثان قومک بالکفر لہدمت الکعبة ثم لجعلت لہا بابین
(الحدیث) (مسدن احمد ص ۱۸۹۶ حدیث نمبر ۲۵۹۵۲)
ترجمہ: اگر میری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی تو
میں کعبہ کو توڑ کر اساس ابراہیمی پر اس کے دروازے بنادیتا
(اور حطیم کو اس میں شامل کرتا)
آپ کا عام دستور تھا کہ جب آپ کو دو چیزوں میں سے کسی ایک
کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس میں
آسان تر کو اختیار فرماتے بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہوتا۔
وما خیر رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم الا
اختار أَیْسرہما مالم یکن اثماً . (متفق علیہ: مشکوٰة:۵۹۱،
مسند احمد بروایت حضرت عائشہ ص ۱۸۳۷ حدیث
نمبر ۲۵۰۵۶)
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه نے حضرت ابن عباس رضى
الله تعالى عنه سے پوچھا کہ دین میں تنگی نہ ہونے کا کیا
مطلب ہے جب کہ ہم کو بدکاری، چوری اور دوسری بہت سی سفلی
خواہشات کی چیزوں سے روک دیاگیا ہے، حضرت ابن عباس نے
جواب دیا تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ سخت قسم کے احکام کا جو
بوجھ بنی اسرائیل پر تھا وہ اس امت پر نہیں ہے۔ (کشاف ص ۲۹۲،
تفسیر کبیر ج۶ ص ۱۲۸)
ان آیات واحادیث سے اسلامی قانون کا مزاج سمجھنے میں
کافی مدد ملتی ہے اور عام انسانی مفادات کیلئے اس میں
کتنی گنجائش ہے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں اسلامی قانون میں جو جامعیت، ابدیت،
معنویت، زندگی، نفاست وحس اور ہر دور کے حالات پر اس کی تطبیقی
صلاحیت پائی جاتی ہے وہ دنیا کے کسی قانون میں
نہیں ہے اسی لئے ہر زمان ومکان میں اسی کو قیادت کا
حق بنتا ہے۔
اسلامی قانون کے اس امتیاز کو درج ذیل عنوانات کے تحت سمجھا
جاسکتا ہے۔
قانونی حیثیت
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی قانون کی توثیق
وتصدیق انسانی جماعت یا انسانی عدالت کرتی ہے اس کے
بغیر وہ قانون بن ہی نہیں سکتا، جبکہ اسلامی قانون کی
تصدیق خود رب کائنات کرتا ہے، دنیاکی عدالت اس کو مانے یا
نہ مانے اس کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں
پڑتا۔
تقدیس کا پہلو
انسانی قانون اپنے لئے کوئی تقدیس کا پہلو نہیں
رکھتا، یہ لوگوں کے جسموں پر حکومت کرتا ہے دلوں پر نہیں، جبکہ اسلامی
قانون اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک مقدس ومحترم قانون ہے، یہ
انسانوں کے لئے خدا کا عطیہ ہے، اس طرح یہ جسموں کے ساتھ دلوں پر بھی
حکومت کرتا ہے اور سوسائٹی کے ظاہر وباطن دونوں سے بحث کرتا ہے۔
مثبت ومنفی فرق
انسانی قانون کی تعمیر عموماً منفی بنیادوں پر
ہوئی ہے، یہ اکثر رد عمل کے نتیجہ میں وجود پذیر
ہوتا ہے، اسی لئے افراد کی تعمیر، اخلاقیات، تزکیہٴ
نفس اور تطہیر وتربیت کے ابواب میں یہ کوئی رہنمائی
نہیں کرتا، جبکہ اسلامی قانون زیادہ تر مثبت اصولوں پر چلتا ہے،
اور اعمال سے زیادہ اسباب ومحرکات پر نگاہ رکھتا ہے اور اسی کی
روشنی میں یہ قانون سازی کرتا ہے۔
قانونی معنویت
انسانی قانون کی بنیاد محض خاندانی رسوم وروایات
اور علاقائی عرف وعادات پر ہے اس لئے اس میں تعصبات وتنگ نظری کی
تمام آلودگیاں موجود ہیں اس میں علمی اور فلسفیانہ
بنیادوں کی آمیزش نہیں ہے، جبکہ اسلامی قانون کی
بنیاد روز اوّل ہی سے انسانی فطرت اور ہدایت الٰہی
پر ہے، یہ ابتداہی سے عالمگیر اور فلسفیانہ بنیادوں
پر تعمیرہوا ہے، انسانی قانون ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد جس منزل پر
پہنچے گا اسلامی قانون کا پہلا قدم ہی وہاں سے اٹھا ہے۔
قانونی وحدت
قانون میں وحدت ویکسانیت بھی ایک ضروری چیز
ہے انسانی قانون میں اصل کے لحاظ سے وحدت ویکسانیت موجود
نہیں ہے اس لئے کہ اس کے سرمایے میں خاندانی روایات
اور قومی عرف وعادات کا بڑا حصہ ہے جو ہر علاقہ اور خاندان کے اعتبار سے
مختلف ہوتے ہیں... جبکہ اسلامی قانون شروع سے وحدت کے اصول پر قائم ہے
اس لئے کہ اس کی بنیاد رسم وروایات کے بجائے ہدایت الٰہی
پر ہے، حضرت آدم عليه السلام سے لے کر حضور صلى الله عليه وسلم تک تمام انبیاء
کے قوانین ایک ہی وحدت کے ساتھ وابستہ ہیں، خود قرآن اس کی
شہادت دیتا ہے۔
شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً والذی
اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ
أن أقیموا الدین ولا تفرقوا فیہ (شوریٰ:۱۳)
ترجمہ: تمہارے لئے بھی اسی دین کو مشروع کیا ہے جس کی
تعلیم نوح کو دی تھی اور اے پیغمبر! یہ بھی
جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور یہی دین
ہے جس کی تعلیم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ
کو دی تھی کہ اس دین کو قائم کریں اور اس میں
اختلاف نہ کریں۔
سرچشمہٴ قانون
اسی طرح انسانی قانون چند انسانی ذہنوں کی پیداوار
ہے جبکہ اسلامی قانون خود خالق کائنات کا دیا ہوا عطیہ ہے اور
آج اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ
انسان کبھی خود اپنے لئے قانون مرتب نہیں کرسکتا، اس لئے کہ انسان
محدود علم واحساس رکھتا ہے وہ کروڑوں انسانوں کی نفسیات کا قدر مشترک
معلوم نہیں کرسکتا اور تمام لوگوں کے احساسات وطبائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون
سازی ہرگز نہیں کرسکتا، قانون خواہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ بنایا
جائے مگر اس میں طبعی میلانات اور ذاتی رجحانات کا اثر
ناگزیر طور پر آئے گا... اس لئے قانون سازی کا حق صرف خالق کائنات کو
ہے۔
قانون جماعت سے یا جماعت قانون سے؟
انسانی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان ایک اصولی
فرق یہ بھی ہے کہ انسانی قانون میں قانون جماعت سے موٴخر
ہوتا ہے، سوسائٹی پہلے ہوتی ہے اوراس کی تنظیم کیلئے
قانون بنایا جاتا ہے، قانون جماعت کو پیدا نہیں کرتا....
جبکہ اسلام میں قانون جماعت سے مقدم ہے جماعت کے وجود اور اس کے حالات پر
قانون کا انحصار نہیں ہوتا بلکہ قانون پہلے بنتا ہے اس کے مطابق جماعت کی
تعمیرہوتی ہے، اگر حالات سازگار نہیں ہیں تو ان کی
اصلاح کی جاتی ہے اور ان کو نفاذ قانون کے لائق بنانے کی کوشش کی
جاتی ہے، مگر حالات کی بنا پر قانون نہیں بدلا جاسکتا۔
نفاذ کی قوت
انسانی قانون قوت نفاذ کے لحاظ سے بھی کمزور واقع ہوا ہے اسے اپنے
افراد پر مکمل قابو نہیں ہوتا اور نہ تنہا قانون جرائم کے انسداد کے لئے کافی
ہوتا ہے اس کو اپنے کسی بھی قانون کے عملی نفاذ کے لئے مضبوط
مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے اس قانون میں مجرمین
کے بچ نکلنے کے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں۔
اس کے برخلاف اسلامی قانون کا آغاز ہی فکر آخرت اور حلال و حرام
کے احساس سے ہوتا ہے وہ انسانی ضمیر کی تربیت کرتا ہے اور
اس کے ظاہر وباطن کو قانون کیلئے تیار کرتا ہے، وہ اپنے ہر شہری
کے دل ودماغ میں یہ احساس راسخ کرتا ہے کہ
کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ. (متفق علیہ ریاض
الصالحین للنواوی ج۱ ص ۱۴۵)
ترجمہ: ”تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی
متعلقہ ذمہ داری کے بارے میں باز پرس ہوگی۔“
انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل
بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاحسب انہ صدق فاقضی لہ بذٰلک
فمن قضیت لہ بحق فانما ہی قطعة من النار فلیأخذہا او لیترکہا
(متفق علیہ مشکوٰة باب الاقضیہ والشہادات: ۳۲۷)
ترجمہ: ”میں ایک انسان ہوں، میرے پاس مقدمات آتے ہیں،
ممکن ہے کہ کوئی فریق اپنے مدمقابل سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں
اس کے ظاہری دلائل کی بنا پر اس کو سچ گمان کروں اور اس کے حق میں
فیصلہ کردوں اس لئے اگر میں کسی بھائی کیلئے دوسرے
مسلمان بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں تو محض فیصلہ کی بنا
پر وہ درست نہیں ہوجائے گا وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہوگا جو چاہے لے اور جو
چاہے چھوڑ دے۔“
انسانی قانون نہ صرف یہ کہ نگرانی اورحق پرستی کی
اس عظیم قوت سے محروم ہے بلکہ اس کا تصور بھی اس کے دامن خیال میں
نہیں ہے۔
اسلامی قانون میں انسانی نفسیات کی رعایت
اسلامی قانون فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اس میں
انسانی طبائع اورنفسیات کی پوری رعایت ملحوظ رکھی
گئی ہے قرآن کی آیت ذیل میں اسی کی طرف
اشارہ کیاگیا ہے:
فاقم وجہک للدین حنیفاً فطرة اللّٰہ التی
فطر الناس علیہا لاتبدیل لخلق اللّٰہ ذٰلک الدین
القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون (الروم:۳۰)
ترجمہ: ”پس پوری یکسوئی کے ساتھ اس دین کی طرف
متوجہ ہوجاؤ جو اللہ کی اس فطرت کے عین مطابق ہے جس پر اللہ نے لوگوں
کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی
نہیں ہوسکتی لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“
انسانی قانون میں کبھی بھی تمام انسانی طبائع
اور تقاضوں کی رعایت ممکن نہیں ہے اس کی بیشمار
مثالیں موجود ہیں (تفصیل کے لئے مطالعہ کریں حقیر
راقم الحروف کی کتاب ”قوانین عالم میں اسلامی قانون کا
امتیاز،ج۱،ص۲۵۱-۲۵۴)
اسلامی قانون میں انسانی مصالح کی رعایت
اسلامی قانون کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں
انسانی مصالح کو قانونی اساس کا درجہ حاصل ہے انسانی مصالح سے
مراد پانچ امور ہیں... جان ... دین... نسل... عقل... اور مال، ان
پانچوں چیزوں کی حفاظت سے متعلق تمام چیزیں مصالح انسانی
میں داخل ہیں، دین ودنیا کے معاملات کا مدار انہی
پر ہے اورانہی کے ذریعہ فرد اور جماعت کے جملہ مسائل کی نگرانی
ہوتی ہے، تفصیل کیلئے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ کیاجائے۔
آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے
مذکورہ بالا وجوہات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانی دنیا کی
رہنمائی آج بھی اسلامی قانون ہی کے ذریعہ ممکن ہے،
اسلام ایک مکمل دین اور مکمل قانون ہے یہ ساری انسانیت
کیلئے ایک فطری قانون ہے...
صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کررہا
ہے اگرچے کہ اس میں الٰہی قوانین سے بڑی حد تک
استفادہ کیاگیاہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا
مکمل قانون وضع نہ کیا جاسکا جس کو ناقابل ترمیم قرار دیا جائے
اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار اس کو کہا جاسکے... یہ
صرف قانون اسلامی ہے جو اپنے کو کامل ومکمل بھی کہتا ہے اور ناقابل
تنسیخ بھی قرار دیتا ہے۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی
ورضیت لکم الاسلام دیناً (مائدة:۳)
ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر
اپنی نعمتیں تمام کردیں اور بحیثیت دین اسلام
کو پسند کیا“
ونزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیء وہدیً
ورحمة وبشریٰ للمسلمین (الاعراف:۵۲)
ترجمہ: ”اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا
واضح بیان اور مسلمانوں کے لئے ہدایت ورحمت وبشارت موجود ہے۔“
قرآن ایسے اصول وکلیات سے بحث کرتا ہے جن پر ہرزمانہ اور ہر خطہ میں
پیش آنے والی جزئیات کو منطبق کیا جاسکتا ہے اور ہر دور
کے حالات وواقعات میں قرآنی نظائر وامثال سے روشنی حاصل کی
جاسکتی ہے، قرآن کا یہ دعویٰ واقعات وتجربات کی
روشنی میں بالکل درست ہے۔
ولقد ضربنا للناس فی ہذا القرآن من کل مثل (زمر:۲۷)
ترجمہ: ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کیلئے ہر طرح کی مثالیں
بیان کردی ہیں“
اوراس کا اعتراف اپنے الفاظ میں قانون کے
مغربی ماہرین نے بھی کیاہے کہ شریعت اسلامی میں
زندگی کے تمام مسائل ومشکلات کے حل کی پوری صلاحیت موجود
ہے، متعدد سیمیناروں میں ان ماہرین نے باقاعدہ یہ
قرار داد منظور کی کہ شریعت اسلامی بھی قانون سازی
کے عام مصادر میں سے ایک مصدر ہے، اس میں ارتقاء کی پوری
صلاحیت موجود ہے اور یہ قرار داد قانون مقارن کی بین
الاقوامی کانفرنس ۱۹۳۱/ منعقدہ لاہای) میں
منظور ہوئی، پھر اس کی تجدید اسی شہر میں ہونے والی
دوسری کانفرنس (۱۹۳۷/) میں ہوئی، نیز
اسی طرح کی ایک قرار داد وکلاء کی بین الاقوامی
کانفرنس (منعقدہ لاہای ۱۹۴۸/) میں بھی
منظور ہوئی۔
حقوق مقارنہ کی بین الاقوامی اکیڈمی کے شعبہٴ
شرقیہ نے ۱۹۵۱/ میں پیرس یونیورسٹی
کے کلیة الحقوق میں ”ہفتہٴ فقہ اسلامی“ کے نام سے ایک
کانفرنس منعقد کی، اس میں حقوق کے تمام کالجوں کے عرب وغیر عرب
اساتذہ، ازہر کی کلیات کے اساتذہ اور فرانس اور دیگر ممالک میں
وکالت اور استشراق سے وابستہ متعدد ماہرین کو دعوت دی گئی، اس میں
مصر سے ازہر اور حقوق کی کلیات کے چار ارکان نے اور سوریا کے کلیة
الحقوق سے دو ارکان نے نمائندگی کی ... مناقشات کے دوران ان کے بعض
ارکان جو سابق میں پیرس میں وکالت کے نقیب رہ چکے تھے اٹھ
کر کھڑے ہوئے اور کہا کہ:
”میں حیران ہوں کہ کیسے
تطبیق دوں اس کہانی کے درمیان جو اب تک سنی جاتی تھی
اور آج کے اس انکشاف کے درمیان، ایک زمانہ تک یہ باور کرایاگیا
کہ اسلامی فقہ ایک جامد اور غیرترقی پذیر قانون ہے
اس میں قانون سازی کی اساس بننے اور عصر جدیدکی ترقی
یافتہ تغیر پذیر دنیا کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت
نہیں ہے جبکہ آج کے محاضرات ومناقشات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی قانون
کے تعلق سے یہ مفروضہ بالکل بے بنیاد ہے اور دلائل و براہین اس
کے خلاف ہیں۔
چنانچہ ہفتہ فقہ اسلامی کے اختتام پر اس کانفرنس نے درج ذیل تجاویز
منظور کیں:
* حقوق کے بارے میں قانون سازی کے نقطئہ نظر سے
فقہ اسلامی کے سرچشموں کی بڑی اہمیت ہے جس میں کسی
شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
* حقوق کے اس عظیم مجموعے میں مذاہب فقہیہ
کا اختلاف دراصل معانی ومفاہیم اور اصول وکلیات کا بڑا سرمایہ
ہے جو مقام حیرت ومسرت ہے اور جن کی وجہ سے فقہ اسلامی زندگی
کے تمام تر جدید تقاضوں اور قانونی ضروریات کی تکمیل
کرسکتی ہے۔ (قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز
ج۱ ص ۲۷۲-۲۷۴)
ان سیمیناروں نے عرب کے ماہرین قانون کو موجودہ قوانین
پر نظر ثانی کی دعوت دی اور ان کے ذہنوں کو اس جانت متوجہ کیا
کہ شریعت اسلامیہ ایک ترقی پذیر اور ہر زمانہ اور
ہر خطہ کے مسائل وجزئیات کی تطبیق دینے والی ابدی
شریعت ہے اور جو لوگ دنیاکو شریعت اسلامی کی طرف
آنے کی دعوت دیتے ہیں اوراحکام اسلامی کے علاوہ کسی
قانون کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ان کا دعویٰ
درست ہے۔
ان سیمیناروں اور کانفرنس کے بڑے خوشگوار اثرات قانونی دنیا
پر پڑے اور پوری دنیا قانونی رہنمائی کے لئے شریعت
اسلامی کی طرف متوجہ ہوگئی مثلاً منحرف مصر نے اپنا جدید
قانون تمدن تیار کیا تو اسلامی قانون کو ایک بڑے مآخذ کی
حیثیت سے سامنے رکھا اور اس سے خاصا استفادہ کیا، مصر نے اسلامی
فقہ کو عام سرکاری مآخذ میں سے ایک مآخذ تسلیم کیاہے
(تفصیل کے لئے دیکھئے ڈاکٹر احمد فراج حسین کی کتاب ”تاریخ
الفقہ الاسلامی ص ۱۸)
اس کے بعد متحدہ عرب جمہوریات نے جب اپنا دستور مرتب کیا تو اس میں
شریعت اسلامیہ کو تشریعی اساس قرار دیا۔
اسی طرح مصر کی حکومت نے جب دوبارہ اپنے دستور کی ترتیب
کا کام انجام دیا تو اس نے ہر قانون میں اسلامی احکام کے التزام
کی ہدایت دی اور اس کو دستور کا لازمی جزو قرار دیا۔
اگر یونیورسٹیوں میں تحقیق وریسرچ کے
شعبہ میں اسلامی قانون کو مطالعہ کا خاص موضوع بنایا جائے تو وہ
دن دور نہیں کہ دنیا کے تمام قوانین اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں
گے۔
چنانچہ عربی یونیورسٹیوں کے اتحاد نے متعلقہ تمام کالجوں
کے ذمہ داروں کو اس کیلئے دعوت دی تاکہ مذکورہ احساسات کو عملی
شکل دی جاسکے ... اس سلسلے میں مورخہ ۲۴،۳۰/اپریل
۱۹۷۳ء کو بیروت یونیورسٹی میں
پہلی کانفرنس ہوئی اور اس کانفرنس نے یہ اپیل کی کہ
بلاد عرب کی تمام کلیات الحقوق میں شریعت اسلامیہ
کو قانون کے سرکاری مآخذ کی حیثیت سے تحقیق و دراست
کا موضوع بنایا جائے۔
دوسری کانفرنس مارچ ۱۹۷۴ء میں بغداد یونیورسٹی
میں ہوئی اس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر مناقشہ کیاگیا
اور کافی بحث وتمحیص کے بعد بعض سفارشات منظور ہئیں ان میں
اہم ترین حصہ وہ ہے جو ملک کے دستوری حقوق کی روشنی میں
شریعت اسلامیہ کو قانون سازی کا مرکزی مآخذ بنانے کی
سفارش کی گئی تھی۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ کریں
ڈاکٹر فراج حسین کی کتاب تاریخ الفقہ الاسلامی ص ۱۹-۲۰)
اس طرح کی کوششیں چھوٹی بڑی سطح پر بار بار کرنے کی
ضرورت ہے تاکہ اسلامی قانون کے تعلق سے غلط فہمیاں دور ہوں اور دنیا
پھر اسلامی قانون سے استفادہ کے قابل ہوسکے۔
* * *
-------------------------------
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان - ذيقعده 1431 ھ مطابق ستمبر - اكتوبر 2010 ء